مذهبی نماز کی‌فضیلت


1۔ خشوع کا لغوی معنی

لفظ خشوع کے معانی اطاعت کرنا، جھکنا اور عجز و انکسار کا اظہار کرنا ہیں۔ اس کیفیت کا تعلق دل اور جسم دونوں سے ہوتا ہے۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ بندے کا دل رب ذوالجلال کی عظمت و کبریائی اور اس کی ہیبت و جلال سے مغلوب ہو اور اپنے منعمِ حقیقی کی بے پایاں بخششوں اور احسانات کے شکریہ میں مصروف ہونے کے ساتھ عجز و انکساری اور بے چارگی کا اعتراف بھی کرے۔ جسم کا خشوع یہ ہے کہ اس مقدس بارگاہ میں کھڑے ہوتے ہی سر جھک جائے، نگاہ نیچی ہو جائے، آواز پست ہو، جسم پر کپکپی اور لرزہ طاری ہو اور ان تمام آثارِ بندگی کو اپنے جسم پر طاری کرنے کے بعد اپنی حرکات و سکنات میں ادب و احترام کا پیکر بن جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ.

(الزمر، 39 : 23)

’’جس سے اُن لوگوں کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔‘‘

نماز میں خشوع سے مراد وہ کیفیت ہے کہ دل خوف اور شوق الٰہی میں تڑپ رہا ہو اس میں ماسوا اﷲ کی یاد کے کچھ باقی نہ رہے، اعضا و جوارح پر سکون ہوں، پوری نماز میں جسم کعبہ کی طرف اور دل رب کعبہ کی طرف متوجہ ہو۔

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ’’درمیانے انداز کی دو رکعتیں جن میں غور و فکر کا غلبہ ہو پوری رات یوں ہی کھڑا رہنے سے بہتر ہیں کہ دل سیاہ ہو۔‘‘
 
آخرین ویرایش توسط مدیر:

2۔ خشوع نماز کا مغز ہے

مومن کا شعار صرف نمازی ہونا ہی نہیں بلکہ نماز میں خشوع اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ خشوع نماز کا مغز ہے اور اس کے بغیر اقامتِ صلوٰۃ کا تصور بھی ممکن نہیں۔ اور اگر نماز میں آداب کی رعایت اور لحاظ نہ ہو تو پھر مثال یوں ہوگی جیسے کسی کی آنکھیں تو ہوں لیکن بصارت نہ ہو، کان تو ہوں مگر سماعت نہ ہو لہٰذا نماز کی روح یہ ہے کہ ابتدا سے آخر تک خشوع کا غلبہ ہو اور حضورِ قلب قائم رہے کیونکہ دل کو اﷲ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھنا اور اﷲ تعالیٰ کی تعظیم و ہیبت کی کیفیات کو اپنے اوپر طاری رکھنا ہی نماز کا اصل مقصد ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِيO

(طه، 20 : 14)

’’اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کروہ۔‘‘

اس آیۂ کریمہ کی رو سے جو شخص پوری نماز میں یاد الٰہی سے غافل رہا وہ کیسے ذکرِ خداوندی کے لئے نماز کو قائم کرنے والا ہوگا۔ ارشاد خداوندی ہے :

وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعاً وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلاَ تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَO

(الأعراف، 7 : 205)

’’اور اپنے رب کا اپنے دل میں ذکر کیا کرو عاجزی و زاری اور خوف و خستگی سے اور میانہ آواز سے پکار کر بھی، صبح و شام (یادِ حق جاری رکھو) اور غافلوں میں سے نہ ہوجاؤ۔‘‘

ش
 
آخرین ویرایش توسط مدیر:

3۔ نماز میں خشوع کے عملی نمونے

حضرت عبد اﷲ بن شخیر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیفیتِ نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

أَتيتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهو يُصَلِّي وَلِجَوْفهِ أَزيرٌ کَأزيزِ الْمِرْجَلِ مِنَ البُکاءِ.

(ترمذی، الشمائل المحمدية : 527، رقم : 322)

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینۂ انور سے رونے کی آوازیں اس طرح آرہی تھیں جیسے ہنڈیا کے ابلنے کی آواز آتی ہے۔‘‘

امام غزالی علیہ الرحمۃ ’’احیاء علوم الدّین‘‘ میں چند صلحائے امت کے نماز میں خشوع و خضوع کے بارے درج ذیل اقوال نقل کرتے ہیں :

1۔ حضرت علی بن حسین علیہ الرحمۃ کے بارے میں مذکور ہے کہ جب آپ وضو کرتے تو آپ کا رنگ زرد ہوجاتا۔ گھر والے پوچھتے آپ کو وضو کے وقت یہ کیا ہوجاتا ہے؟ وہ فرماتے : ’’کیا تمہیں معلوم ہے میں کس کے سامنے کھڑے ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں؟‘‘

2۔ حضرت حاتم علیہ الرحمۃ کے بارے میں منقول ہے کہ جب ان کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : ’’جب نماز کا وقت ہو جاتا ہے تو میں مکمل وضو کرتا ہوں، پھر اس جگہ آجاتا ہوں، جہاں نماز پڑھنے کا ارادہ ہوتا ہے وہاں بیٹھ جاتا ہوں یہاں تک کہ میرے اعضاء مطمئن ہوجاتے ہیں، پھر نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں کعبہ کو ابرو کے سامنے، پل صراط کو قدموں کے نیچے، جنت کو دائیں اور جہنم کو بائیں طرف، موت کے فرشتے کو پیچھے خیال کرتا ہوں اور اس نماز کو اپنی آخری نماز سمجھتا ہوں، پھر امید و خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کھڑا ہو کر حقیقتًا اﷲ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان کرتا ہوں، قرآن حکیم ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہوں، رکوع تواضع کے ساتھ اور سجدہ خشوع کے ساتھ کرتا ہوں، بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتا ہوں، دائیں پاؤں کو انگوٹھے پر کھڑا کرتا ہوں، اس کے بعد اخلاص سے کام لیتا ہوں پھر بھی مجھے معلوم نہیں کہ میری نماز قبول ہوئی یا نہیں۔‘‘

3۔ حضرت مسلم بن یسار علیہ الرحمۃ کے بارے میں منقول ہے کہ ’’جب وہ نماز کا ارادہ فرماتے تو اپنے گھر والوں سے فرماتے، گفتگو کرو میں تمہاری باتیں نہیں سنتا انہی کے بارے میں مروی ہے کہ ایک دن بصرہ کی مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مسجد کا ایک کونہ گر گیا لوگ وہاں جمع ہوگئے لیکن آپ کو نماز سے فارغ ہونے تک پتا نہ چل سکا۔‘‘
 
آخرین ویرایش توسط مدیر:

(غزالی، احیاء علوم الدین، 1 : 151)

مذکورہ بالا اقوال سے معلوم ہوا کہ حقیقت میں درست نماز وہی ہے جس میں از آغاز تا اختتام تک دل بارگاہِ الٰہی میں حاضر رہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ نماز میں اﷲ عزوجل کی جس جس صفت کا بیان زبان پر آئے اس کی معنویت کا نقش دل پر بیٹھتا چلا جائے۔ اگر نماز کو اس کے معانی کے ساتھ اور ان کیفیات و لذّات کے ساتھ پڑھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بندہ خیالات کی پراگندگی، ذہنی انتشار اور شیطانی وساوس سے نجات نہ پاسکے۔

4۔ نماز میں حضورِ قلبی کی تدابیر

نماز میں داخل ہوتے ہی ایسے وسوسے اور خیالات آنے لگتے ہیں جن سے توجہ منتشر ہوجاتی ہے اور نماز میں یکسوئی نصیب نہیں ہوتی۔ لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ اس صورت حال کا ازالہ کیسے کیا جائے؟

امام غزالی علیہ الرحمۃ (450۔ 505) نے نماز میں شیطانی خیالات، وسوسوں سے بچنے، خشوع و خضوع اور حضور قلبی برقرار رکھنے کے لئے درج ذیل تدابیر بیان فرمائی ہیں :

1۔ جیسے ہی انسان اذان کی آواز سنے تو دِل میں تصور کرے کہ مجھے میرے خالق و مالک اور غفور رحیم کی بارگاہ میں حاضری کا بلاوا آگیا ہے اب میں ہر کام پر اس حاضری کو ترجیح دیتا ہوں لہٰذا جس کام میں بھی مشغول ہو اسے چھوڑ کر نماز کی تیاری کرے۔ اس بات کو قرآن حکیم نے یوں بیان کیا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ.

(الجمعة، 62 : 9)

’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کیلئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔‘‘
 
آخرین ویرایش توسط مدیر:

دوسرے مقام پر فرمایا :

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ.

(النور، 24 : 37)

’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے۔‘‘

خشوع و خضوع کے لئے ضروری ہے کہ مؤذن کی صدا سننے کے بعد نماز کے علاوہ کوئی کام اسے بھلا نہ لگے۔ دل بار بار اپنے مالک کی حاضری کی طرف متوجہ ہو اور خوش ہو کہ مالک نے یاد فرمایا ہے اور میں حاضر ہو کر اپنی تمام روداد عرض کروں گا۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگوں گا، شوق و محبت سے قیام، رکوع اور سجود کے ذریعے دلی راحت و سکون حاصل کرکے اپنے تمام غموں اور صدماتِ ہجرو فراق کا ازالہ کروں گا۔ میں محبوبِ حقیقی کی حاضری کے لئے طہارت کرتا، اچھے کپڑے پہنتا اور خوشبو لگا کر حاضر ہوتا ہوں کیونکہ میرے مالک کا حکم ہے :

يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ.

(الاعراف، 7 : 31)

’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو۔‘‘

بندے کو چاہئے کہ بارگاہِ خداوندی کی عظمت کا بار بار تصور کرتے ہوئے سوچے کہ اتنی بڑی بارگاہ میں کیسے حاضری دوں گا؟

  1. نماز کے معانی ذہن نشین کرلئے جائیں اور اس کا مفہوم لفظاً لفظاً ازبر کرلیا جائے۔ مثلًا جیسے ہی لفظ ’’سبحان‘‘ زبان سے ادا ہو خدا کی بڑائی، پاکیزگی اور تقدس کا تصوّر دل و دماغ میں گھر کر جائے اور نمازی پر یہ خیال حاوی ہوجائے کہ وہ سب سے بڑے بادشاہ کے دربار میں دست بستہ حاضر ہے جو ہر عیب اور نقص سے اس طرح پاک ہے کہ اس سے زیادہ پاکیزگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
  2. جب اس کی کبریائی کا ذکر آئے تو آسمانی اور ارضی کائنات کی ہر شے سے اسے بڑا جانے اور ساری مخلوق اس کی عظمت کے آگے بے مایہ ہیچ اور حقیر نظر آنے لگے۔
  3. نماز شروع کرنے سے پہلے نمازی کا دل باقی چیزوں سے اجنبی و بیگانہ ہوکر اپنے رب کریم کی طرف متوجہ ہوجائے۔
 
آخرین ویرایش توسط مدیر:

2۔ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وعید

احادیثِ مبارکہ میں متعدد مقامات پر نماز چھوڑ نے پر وعید سنائی گئی ہے۔ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

بَيْنَ الرَّجُلِ وَبيْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاةِ.

’’انسان اور اس کے کفر و شرک کے درمیان نماز نہ پڑھنے کا فرق ہے۔‘‘

(مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان إطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاة، 1 : 88، رقم : 82)

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے محبوب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی :

وَ لَا تَتْرُکْ صَلَاةً مَکْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا فَمَنْ تَرَکَهَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ.

(ابن ماجة، السنن، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء، 4 : 417، رقم : 4034)

’’کوئی فرض نماز جان بوجھ کر ترک نہ کرنا پس جس نے ارادۃً نماز چھوڑی اس نے کفر کیا اور اس سے (اﷲ) بری الذمہ ہوگیا۔‘‘
 
آخرین ویرایش توسط مدیر:

(اخلاقیات)

اولاد کے حقوق

دین اسلام اعتدال اور توازن کا درس دیتا ہے۔ اسلام جہاں والدین کو بے شمار حقوق عطا کرتا ہے وہاں پر اولاد کے سلسلہ میں بہت سے فرائض بھی عائد کرتا ہے۔ والدین کے یہی فرائض اولاد کے حقوق کہلاتے ہیں۔

صالح اولاد طلب کرنا سنت انبیاء ہے

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں صالح اولاد طلب کرنا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ قرآن مجید میں حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا مذکور ہے جس میں آپ اللہ کے حضور دست بدعا ہیں۔

فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّاO يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّاO

(مريم، 19 : 5، 6)

’’تو مجھے اپنی (خاص) بارگاہ سے ایک وارث (فرزند) عطا فرماo جو (آسمانی نعمت میں) میرا بھی وارث بنے اور یعقوب علیہ السلام کی اولاد (کے سلسلہ نبوت) کا (بھی) وارث ہوo‘‘

زکریا علیہ السلام کی یہ دعائیں پیغام دے رہی ہے۔ اللہ جل مجدہ کی بارگاہ سے اولاد طلب کی جائے، لیکن مقصد جائیداد کا وارث پیدا کرنا نہ ہو بلکہ نسل درنسل منتقل ہونے والی ایمان، حیاء اور اخلاق کی اقدار کا وارث مانگا جائے اور اس کے نیک اور صالح ہونے کی دعا کی جائے۔ موجودہ دورفتن میں والدین معاشی خوشحالی کی دوڑ میں اولاد کی تربیت سے غافل ہو چکے ہیں۔ جس دن اولاد قرآن مجید ناظرہ ختم کرلے اس دن والدین بچوں کی دینی تعلیم سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے انبیاء بھی پوری زندگی اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت میں نہ صرف عملًا مشغول رہتے بلکہ ہر لمحہ ان کے لئے اللہ کے حضور دعاگو بھی رہتے۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے جب اللہ رب العزت نے آپ کے سر پر تاج امامت رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
 
آخرین ویرایش توسط مدیر:

قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا.

(البقره،2 : 124)

’’اللہ نے فرمایا میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔‘‘

اس کے بعد سب سے پہلی دعا جو ابراہیم علیہ السلام نے مانگی عرض کی۔

قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَتِی

’’(کیا) میری اولاد میں سے بھی‘‘

یہ وہ عظیم درس ہے جو ابراہیم علیہ السلام والدین کو عطا فرما رہے ہیں۔ اولادوں کے مقدر بڑی مشکل سے سنورا کرتے ہیں، انبیاء بھی ہر لمحہ اپنی اولاد کے بہتر مقدر کے لئے اللہ کے حضور دعاگو رہے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا پر اللہ جل مجدہ کا جواب والدین کی اولاد کی سلسلہ میں غفلتیں دور کرنے کے لئے کافی ہے۔ اللہ جل مجدہ نے ارشاد فرمایا۔

قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَO

(البقره، 2 : 124)

’’ارشاد ہوا (ہاں مگر) میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچتا۔‘‘

اللہ رب العزت نے اپنے خلیل سے فرمادیا کہ جو کوئی اہل ہو گا یہ امانت اسے ہی منتقل ہو گی حد سے بڑھنے والوں کو اس میں سے حصہ نہ ملے گا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اولاد کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ والدین ساری عمر اولاد کے بہتر مقدر کے لئے اللہ سے دعا کریں اور کسی بھی لمحے اولاد کی عملی تربیت سے غافل نہ رہیں۔
 
آخرین ویرایش توسط مدیر:

ابتدائی عمر میں تربیت کا آغاز

اولاد کا حق اور والدین کا فرض ہے کہ وہ اولاد کی ابتدائی عمر میں عملی تربیت کا آغاز کریں۔ خود سچ بولیں اور انہیں سچ بولنے کی ترغیب دیں۔ خود نماز ادا کریں اور انہیں ہمراہ لے کر جائیں۔ معاشرہ انہیں ہر لمحہبرائی کا ماحول فراہم کر رہا ہے۔ آپ انہیں نیکی اور خیر کا ماحول بھی فراہم کریں۔ ہم ایک حافظ قرآن کی تلاوت سن کر جوش میں آتے ہیں اور اپنے بچے کو شعبہ حفظ میں داخل کر دیتے ہیں جو ایک ماہ میں واپس آجاتا ہے کیوں؟ اس لئے کہ ہم نے اسے قرآن کی عظمت حفاظ کا مقام اور حفظ کا مقصد کچھ بھی سمجھایا نہیں ہوتا۔ ابتدائی عمر میں تربیت کی سب سے خوبصورت مثال خود تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب پہلی مرتبہ کوہ صفاء پر چڑھ کر اعلانیہ دعوت دی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم تھا کہ مخالفت ہو گی، کفار ومشرکین گالیاں دیں گے اور مخالفت ودشمنی کا ایک طوفان امڈ آئے گا لیکن اس لمحے پہلی اعلانیہ دعوت کے وقت کوہ صفاء پر کھڑے اپنے بائیں بازو پر ننھی فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو اٹھا رکھا تھا۔ اتنی تکلیف اور پریشانی میں ننھی فاطمہ سلام اللہ علیھا کو اپنے ساتھ رکھنے کا کیا مقصد تھا؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھ رہے تھے کہ اسی گود نے حسنین کریمین کی پرورش کرنی ہے۔

اولاد کے عمومی حقوق

والدین پر فرض ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت پر خرچ کریں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم اَفْضَلُ دِيْنَارٍ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ دِيْنَارٌ يُنْفِقُهُ عَلَی عَيَالِهِ.

(مسلم الصحيح، 2 : 691، الرقم، 994)

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ بہترین دینار وہ ہے جسے کوئی شخص اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتا ہے۔‘‘

والدین پر فرض ہے کہ وہ اولاد سے حسن سلوک میں برابری رکھیں۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
 
آخرین ویرایش توسط مدیر:

سَوُّوْا بَيْنَ اَوْلَادِکُمْ فِی الْعِطِيَةِ فَلَوْکُنْتُ مُفَضِّلاً اَحَدًا لَفَضَّلْتُ النِسَاءَ.

(طبرانی فی المعجم الکبير، 11 : 354، رقم 11997)

’’تحائف کی تقسیم میں اپنی اولاد میں برابر رکھو اور اگر میں کسی کو کسی پر فضیلت دیتا تو عورتوں کو (بیٹیوں کو بیٹوں پر) فضیلت دیتا۔‘‘

اولاد پر رحم کرنے اور ان سے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

اَحِبُّوا الصِّبْيَانَ وَارْحَمُوْهُمْ، وَاِذَا وَعَدْتُمُوْهُمْ فَفُوْالَهُمْ فَاِنَّهُمْ لَا يَرَوْنَ اِلاَّ اَنَّکُمْ تَرْزُقُوْنَهُمْ.

’’بچوں سے محبت کرو اور ان پر رحم کرو جب ان سے وعدہ کرو تو پورا کرو کیونکہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ تم ہی انہیں رزق دیتے ہو۔‘‘

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں کے سلسلہ میں زیادہ تاکید فرمائی ہے۔

قَالَ رَسُولُ اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم مَنْ عَالَ ثَلَاثَ بِنَاتٍ فَاَدَّبَهُنَّ وَزَوَّجَهُنَّ وَاَحْسَنَ اِلَيْهِنَّ فَلَه الْجَنَّةَ.

(ابوداؤد فی السنن، 4 : 338، رقم 5147)

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، انہیں ادب سکھایا۔ ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہا تو اس کے لئے جنت ہے۔‘‘

الغرض ایک طرف والدین اولاد کے لئے جنت کا ذریعہ ہیں تو دوسری طرف اولاد کی تربیت والدین کے لیے جنت کا راستہ ہے۔ جیسے والدین کے حقوق بے شمار ہیں ایسے والدین کے فرائض بھی متعدد ہیں اولاد کی تربیت، پرورش، نگرانی، تعلیم، رشتہ ازدواج وغیرہ یہ سب اولاد کے حقوق ہیں۔ والدین اولاد کے لئے بقا کا ذریعہ ہیں تو اولاد والدین کی زندگی اور خوشی کا سبب حقوق و فرائض میں صرف عدل نہیں بلکہ احسان کا جذبہ کارفرما ہو تو گھر جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔
 
آخرین ویرایش توسط مدیر:
کی این تاپیک رو خونده (کل خوانندگان: 0)
هیچ کاربر ثبت نام شده ای این تاپیک را مشاهده نمی کند.
عقب
بالا پایین